کچھ لوگ جو سوار ہیں کاغذ کی ناؤ پر
تہمت تراشتے ہیں ہوا کے دباؤ پر

موسم ہے سرد مہر ، لہو ہے جماؤ پر
چوپال چپ ہے ، بھیڑ لگی ہے الاؤ پر

سب چاندنی سے خوش ہیں ، کسی کو خبر نہیں
پھاہا ہے مہتاب کا گردوں کے گھاؤ پر

اب وہ کسی بساط کی فہرست میں نہیں
جن منچلوں نے جان لگا دی تھی داؤ پر

سورج Ú©Û’ سامنے ہیں نئے دن Ú©Û’ مرØ+Ù„Û’
اب رات جا چکی ہے گزشتہ پڑاؤ پر

گلدان پر ہے نرم سویرے کی زرد دھوپ
Ø+لقہ بنا ہے کانپتی کرنوں کا گھاؤ پر

یوں خود فریبیوں میں سفر ہو رہا ہے طے
بیٹھے ہیں پل پہ اور نظر ہے بہاؤ پر

Ù+Ù+Ù+